Home  |  About Punjabics  |  Aims & Objectives  |  Photo Gallery  |  Opinion  |  Sindhi  |  Contact Us  |  Punjabic Forum  |  Gurmukhi

1857 - کون کس کے خلاف جنگ لڑا ؟

شفقت تنویر مرزا

گوگیرا جس کا نام اب ساہیوال ہے کے اسسٹنٹ کمشنر انچارج نے ملتان ڈویژن کے کمشنر اور سپر نٹنڈنٹ کو بتاریخ 30 جنوری 1948ء لکھا کہ ’’7 ستمبر کی صبح کو مجھے مسٹر برکلے سے ایک مراسلہ ملا جس میں انہوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ احمد خان کھرل کو راستہ میں روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور جس کشتی میں اس نے دریا پار کیا ہے وہ دریا کے کنارے ایک ایسی کھاڑی میں لنگر انداز ہے جہاں ہماری بندوقوں کی گولیاں نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ وہاں پر تعینات چوکیدار نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ کشتی کو کسی حالت میں واپس نہیں لے جانے دے گا چونکہ اسے اس کے متعلق سخت احکامات ملے ہوئے ہیں۔ احمد خاں اس علاقہ کا بادشاہ بنا بیٹھا ہے۔ وہ سردار خود مسٹر برکلے کے پاسے حاضر ہوا اور ان کے ڈانے دھمکانے کے جواب میں اسے کہنے لگا کہ اس نے حکومت برطانیہ کی اطاعت کو رد کر دیا ہے اور اب خود کو شہنشاہ دہلی کی رعایا تسلیم کرتا ہے جس سے اسے تمام ملک میں بغاوت کرانے کے احکامات ملے ہیں۔ اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے گولا باری شروع کر دی جس کا جواب ہماری گھوڑ سوار فون نے دیا۔‘‘ احمد خان کھرل کی شہادت سے پہلے ہی دہلی کے شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ احمد خان کھلر کے خلاف دس فوجی دستے کرنل پیٹن (ol Paton ) لفٹینٹ چیشٹر(t. Chichester) کیپٹن چیمبرلین (ap. Chamberlaine) کیپٹن سنو (apt. Snow) کیپٹن میک اینڈ ریو (apt. Macandrew) لیفٹینٹ نیوائل (t. Neville) اور اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی کمان میں بھیجے گئے تھے۔ احمد خان کی شہادت 21 ستمبر 1857ء کو ہوئی۔ احمد خان کے ساتھیوں نے Lt. neville اور اسسٹنٹ کمشنر برکلے کو بھی مار دیا تب جا کر ہیں نومبر میں امن قائم ہوا۔ مراد فتیانہ نے برکلے کو مارا تھا اور اس کے متعلق ایک مندرجہ زیل لوک گیت بھی رائج ہے۔
آکھے مراد فتیانہ: ساوی تینوں پھراں نت کھرکھرے
تے دیواں کھنڈ نہاری
ہک واری لے چل انگریز برکلی تے
میں ویکھاں اس دی بگھی کالی
ساوی آکھیا: توں کر بسم اللہ دھر پیر رکابے میں حاسداں مار اُڈاری
انگریز دا کلمہ گیا ڈھے سنہری
تے مُڑ ہینوں کڈھ برکلی نوں سٹوئس
جیویں مٹ وچوں لچھا لیندا جھول ہلاری
یہ واقعہ یوپی دہلی اور بہار میں جنگ ختم ہو جانے کے بہت عرصہ بعد کا ہے۔ امیر آف بہاولپور، پنجاب کی چار سکھ ریاستوں کے مہا راجائوں۔ اور پنجاب کے بڑے بڑے جاگریدار خاندانوں نے جو فویں انگریزوں کی مدد کو دی تھیں انہیں کی مدد سے انگریزوں کی مدد کو دی تھیں انہیں کی مدد سے انگریزوں نے دوبارہ طاقت پکڑ لی۔ پنجاب کے یہ جاگیر خاندان اس وقت بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پوری طرح حاوی ہیں۔
یہاں پر میں بہاولپور کے شاعر صحافی اور ایم پی اے تابش الوری کے اس مضمون کا ذکر کروں گا جوال زبیر (970) کے تحریک آزادی کے شمارے میں انہوں نے لکھا ہے۔ یہ مضمون اردو اکیڈمی بہاولپور نے مرحوم مسعود حسن صاحب کی زیر ادارت شائع کیا ہے۔ جناب تابش الوری کا کہنا ہے:
1857 میں جب تمام ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تب بہاولپور نہ صرف خاموش رہا بلکہ اس کی فوجوں نے سکھوں کو پنجاب میں شکست دینے میں انگریزوں کی مدد بھی کی تھی۔‘‘
بہتر یہ ہوتا کہ الوری صاحب بہاولپوری کی فوجوں کے متعلق کچھ اور بھی بتلاتے ۔ بہاولپور گزیٹر میں اس کا ذکر یوں ہے:
20 مئی 1857 (میرٹھ میں بغاوت 10 مئی 1857ء کو شروع ہوئی) کو نواب بہاولپور کو سر ساکے سپرانٹنڈنٹ مسٹر او لیور (liver) کا ایک خط ملا جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ بہاولپور میں جو فوجیں تعینات ہیں انہیں فاضلکا بھیج دیا جائے چنانچہ دو سو سوار روزانہ کر دئیے گئے۔ بعد ازاں چیف کمشنر کے کہنے پر 500 سوار اور 500 پیادہ فوج مزید سر سا بھیج دی گئی اور اسی طرح کر کے کل 3000 فوج ریاست کی طرف سے اس مرکز پر پہنچا دی گئی۔ دریائے ستلج پر کشتی رانی بھی بند کر دی گئی۔ ستلج پر کشتی رانی اس لئے بند کر دی گئی تاکہ لالیکا وٹو اور ساہیوال اور بہاولپور کے جوئیہ قبیلے کے سپاہی دریا پار کر کے دریا میں داخل نہ ہو سکیں۔
الوری صاحب (جو سرسا کے نزدیک ریاست الور سے تعلق رکھتے ہیں) کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس علاقے میں بہاولپور کی فوجیں لڑ رہیں تھیں وہاں سکھ نہ ہونے کے بربار تھے اس علاقہ پر ہندوئوں کی اجارہ داری تھی اور یہاں وہ میدان جنگ تھا جس میں مغلوں یا انگریزوں کے درمیان فیصلہ ہونا تھا۔
ایک اور واقعہ جو 1857ء کی جنگ بارے میں ایک نیا انکشاف یا پہلو لئے ہوئے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ میرٹھ میں بغاوت شروع ہونے سے قبل انگریزوں کی پنجاب کے لئے زیادہ تر فوجیں انبالہ میں تعینات تھیں وہاں ایک بڑی خوفناک آگ لگ چکی تھی جس پر انگریز سخت حیرت زدہ ہوئے۔ گزیٹر میں اس یوںبیان ہے۔
’’بغاوت شروع ہونے سے چند ہفتہ پہلے ہی اس بات کا اندازہ ہونے لگا تھا کہ ہندوستانی سپاہی جو اس چھائونی میں متعین ہیں بد دل ہو رہے ہیں۔ 19 اپیل کو جگہ جگہ پر اسرار آگہیں لگنا شروع ہو گئیں۔ پہلے تو سب کا دھیان جھگیوں کی طرف گیا کہ یہ آگ وہاں سے شروع ہو رہی ہے لیکن پھر راز یہ کھلا کہ یہ آگ ہندوستانی فوج لگا رہے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ بغاوت کی پہلی چنگاری پنجاب میںروشن ہوئی ہو ساہیوال میں جلتی رہی حتّٰی کہ باقی تمام علاقوں میں انگریزوں نے اسے بجھا دیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ انبالہ ڈویژن کا بغاوت کے دوران کون دفاع کر رہا تھا۔ گزیٹر میں بغاوت کی رپورٹوں کے کچھ اقتصابات نیچے دیئے جاتے ہیں:۔
’’جند فوجیوں کے ایک دستہ نے بھگت کے پل پر قبضہ کر لیا جس کی وجہ سے میرٹھ کی فوجیں ہیڈ کوارٹر کی فوجوں سے آن ملیں‘‘جند سواروں کی پارٹی میرٹھ میں داخل ہوئی اور اس سٹیشن کے ساتھ ہمارے رابطے بحال کئے۔
’’انبالہ کی حفاظت مہاراجہ پٹیالہ کی فوجیں کر رہی تھیں اور لدھیانہ کی حفاظت راجہ آف نابھا اور نواب مالیر کو تلہ کے سپرد کی گئی تھی۔‘‘
مشرقی پنجاب کی تقریباً سب سکھ ریاستوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ جبکہ بہاولپور کی فوجوں نے دہلی کے مسلمان حکمرانوں کے جمایتیوں پنجاب کے مسلمان باغیوں مثلاً احمد خاں کھرل، ولی داد مردانہ۔ شور کوٹ کے جلال بھروانہ اور حویلی بہادر شاہ کے پیر احمد شاہ کو زیر کرنے میں مدد دی۔
ریاست بہاولپور کے بغاوت کے دوران کردار میں وہ سب قبائلی سردار اور با اثر شخصیات شامل ہیں جو اپنے ہی لوگوں کی خلاف انگریزوںکی حمایت کرتے تھے۔ بہاولپور ریاست کے متعلق ایس ۔ ایم لطیف اپنی کتاب ’’تاریخ پنجاب‘‘ میں رقم طراز ہیں۔ نواب بہاولپور انگریزوں کی 1847-48 کے محاصرہ ملتان کے دوران بیش بہا خدمات انجام دیں۔ اس کے صلہ میں انہیں سبزل کوٹ اور بھونک کے اضلاع معہ ایک لاکھ روپیہ سالانہ پنشن کے عطا کئے گئے۔ وہ انگریزوں کے معتمد حلیف و خیر خواہ تھے۔ انہوں نے انگریزوں سے 1809ء میں ہی ایک راضی نامہ کر لیا تھا جس کے مطابق وہ اپنی ریاست کی حدود میں تو آزاد تھے لیکن برطانوی حکومت قبول کر لی تھی۔
منظور احمد منظور اپنی کتاب ’’پنجاب … دی پرابلم میں‘‘ ہیں Vincent A Smith کی کتاب "The Oxford History of India" کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ ’’انگریزوں کی قوت کے دو سر چشمے یا مضبوط گڑھ تھے۔ پنجاب اور بنگال میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ پنجاب میں معاملات کر سر جان لارنس نے اپنے آہنی اعصاب کی بدولت سنبھال لیا پنجاب میں تین خطرات تھے۔ا فغان مداخطت کا خطرہ سکھوں کی بغاوت اور ہندوستانی سپاہیوں کی بغاوت لیکن سکھ نہ صرف خاموش رہے بلکہ انگریزوں کی مدد بھی کرتے رہے۔
چیف کمشنر نے سکھوں اور افغانوں کو فون میںبھرتی کرنا شرو ع کر دیا۔ اس حکمت عملی کی بنیاد یہ اندازہ اور صحیح اندازہ تھا کہ ہندوستان کے پوربی سپاہیوں اور پنجاب کے سپاہیوں میں آپس میں نہیں بنتی۔ یہ بدمزگی اور بھی اس وجہ سے زیادہ ہو گئی کہ پوربی سپاہی فوج میں سکھوں اور پنجابی مسلمانوں کی بھرتی کے خلاف تھے لیکن اسے روک بھی نہیں سکتے تھے۔
یہاں ہم کو اب ایمانداری سے یہ مطالعہ کرنا چاہیے کہ جس روز رائے احمد خان کھرل انگریزوں کے ہاتھوں شہیدہوئے تھے اس روز انہوں نے کہا تھا۔
ہُن کھرل یاد کر کے خدا نوں، دھرت اے لت رکابے
پھڑے لڑ لگام دے
آکھے: تسیں ڈھڈوں نہ ڈولو
رائے احمد پیا آکھے جھبونپ تلواریں مریساں
چتواں مرداں دے پتے جاسن لگ وچ مدان دے
اوس دیہاڑے بھیڑیاں پئیاں ہن فوجاں انگریز دیاں
کگھراں آلے کلے دے کولو بانٹھیں انگریز دیاں چک لگھائیاں
پکے نویں کھلے مبین اوہ نشان دے
نماز پڑھدے رائے احمد نوں
اگانہہ دی رلے ہین، سنگ امامؓ دے

’’کھرل خدا کے نام پر اپنے گھوڑے پر سواری کرتا ہے۔ رائے احمد کہتا ہے کہ پس و پیش مت کرو۔ اپنی تلواریں سونت کر آگے بڑھو۔ یہ بہادروں کا اصلی امتحان ہے اس روز برطانوی فوج بری طرح روند دی گئی۔ باغیوں نے اپےن جوہر وکھا دئیے۔ برطانوی فوج کو بنجر میدانوں کی طرف پسپا ہونا پڑا۔ ان کے پسپا ہونے کے آثار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن جس وقت رائے احمد نماز پڑھ رہا تھا اس وقت گلاب رائے بیدی نے اس پر گولی چلادی۔ رائے احمد امام سے جا ملا۔‘‘



بشکریہ ڈان ۔ ترجمہ: نذیر کہوٹ

 

Back to Top        Back to Punjab and War of Independence

 

Punjabics is a literary, non-profit and non-political, non-affiliated organization funded from individual membership and contribution

Punjabics.com 2010 All Rights Reserved      Website Design & SEO by The Best SEO Company Pakistan